ملک کے لوگوں نے ہم آہنگی اور بھائی چارے کاثبوت دیا

جاوید جمال الدین
javedjamaluddin@gmail.com
ہولی جیسے اکثریتی فرقے کے اہم تہوارکے ماہ رمضان کے دوسرے جمعہ پر واقع ہونے بعد ہولی جوش و خروش سے منائی گئی ،اتفاق سے یہ تہوار جمعہ کے دن ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں اورخصوصی طورپر اترپردیش میں اور سنبھل شہر میں حفاظت کے سخت انتظامات کئے گئے۔اس موقع پر ملک کے لوگوں نے ہم آہنگی اور آپسی بھائی چارے کاثبوت پیش کیا۔سنبھل میں گزشتہ برس نومبر میں شاہی جامع مسجد کے سروے کی وجہ سے پھوٹ پڑنے والے تشدد میں 4جانیں گئی تھیں۔ جہاں ہولی تقاریب پرامن رہیں۔ شہر بھر میں کسی مسئلہ کے بغیر جلوس نکالے گئے۔ اسی کے ساتھ شہر کی مختلف مساجد میں نماز ِ جمعہ بھی ادا کی گئی۔ماہ مضان کے دوسرے جمعہ کو نماز کی ادائیگی کے لئے شاہی جامع مسجد میں 2:30 بجے لوگ جمع ہوئے۔ اسی دوران مسجد کے قریب سے ہولی جلوس گزرا جس میں تقریباً 3 ہزار کی بھیڑ تھی۔ نظم وضبط کی برقراری کے لئے شہر بھر میں پولیس فورس تعینات تھی۔ سنبھل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کرشناکمار بشنوئی نے کہا کہ لوگوں نے بڑا تعاون کیا۔ سب کچھ ٹھیک رہا۔ لوگوں نے بھائی چارہ کو بڑھاوا دیا۔سنبھل پولیس نے جو کوششیں کی تھیں وہ کامیاب رہیں۔ سب ڈیویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) وندنا مشرا نے کہا کہ سنبھل میں 68 ہولی جلوس نکالے گئے۔ ان میں 2 جلوس ملی جلی آبادی والے علاقوں سے گزرے۔ ایڈمنسٹریشن اور سیکوریٹی فورسس کے ٹیم ورک کی وجہ سے سب کچھ ٹھیک رہا۔دراصل مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا،جب سنبھل کے وردی پوش سرکل آفیسر( سی او) انوج چودھری نے اس بات کا اظہار کیاکہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے دقت ہے تو وہ گھروں سے باہر نہ آئیں،جمعہ سال میں 52،مرتبہ واقع ہوتا ہے اور ہولی سال میں صرف ایک دن واقع ہوتی ہے،اس لیے مسلمان گھر سے باہر نہیں آئیں،یہ کسی فرقہ پرست لیڈر یا گلی محلے کے چھٹ بھیا لیڈرنے نہیں کہاہے بلکہ اترپردیش کے شہر ہے اور دھکے دبے الفاظ میں مسلمانوں کو تنبیہ کیا ہے کہ گھروں میں اپنے بال بچوں کے ساتھ نماز ادا کریں۔ویسےسنبھل کے تشدد کے دوران موصوف کے متعصبانہ رویے سے سبھی واقف ہیں اور انہوں نے جس جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے،وہ اظہرمن الشمس ہے ،ایک دھارمک جلوس میں گدا لیکر اس کی قیادت کرنا ہے اور مندر بتاکر کہیں کھدائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔انکوائری کا حکم بھی ہوا ،لیکن سیاسی آقاؤں کی سرپرستی رہی تو اقلیتی فرقے کو دھمکانے میں پیچھے نہیں رہے،ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور کوئی اعلی افسر کسی طرح کے بیان دینے پر پابندی لگاتارہے،مگر تیر تو کمان سے نکل چکاتھا،اب بیان بازی کرکے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی پولیس افسر کے بیان پر سیاست گرم ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر پولیس افسران کے بیانات پر تنازع کھڑا ہوتا رہا ہے۔ سنبھل میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامیہ کو پہلے ہی چوکنا رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ تاہم، انوج چودھری کے بیان کے بعد یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا نظرآ رہا ہے۔ اس بیان کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی اور اعلی افسران کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی لعنت ملامت کے بعد ہدایت دی گئی کہ ہولی اور عید جیسے تہواروں کے موقع پر اس طرح کے بیانات سے حالات خراب ہو سکتے ہیں، اس لیے حکام کو ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں۔اس کا اثر یہ ہوا کہ ملک بھر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔اس کا انجام یہ ہے کہ ملک میں کوئی سنگین معاملہ پیش نہیں آیا۔صرف ہولی کے دوروز قبل مہاراشٹر کے رتناگیری راجا پور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ممبئی پولیس نے شہر بھر میں گیارہ ہزاراہلکار تعینات کیے تھے، تاکہ ہراسانی، نشے میں جھگڑوں اور عوامی بے حیائی کے واقعات کو روکا جا سکے۔ حکام نے توہین آمیز اشاروں، نعروں اور عوامی مظاہروں پر پابندی عائد کردی۔ شہر بھر میں سیکیورٹی چیک پوسٹس قائم کی گئی ہیں۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی یا عوامی بدامنی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔البتہ ہولی سے دوروز قبل کوکن کے پُر امن علاقہ میں شرانگیزی کی سبھی نے مذمت کی ہے۔رتناگیری پولیس نے راجاپور کی مسجد میں زبردستی گھسنے کی خبر کی تردید کی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ کوکن خطہ کے اس پر امن علاقے میں فرقہ پرستوں نے زہر پھیلادیاہے جولوگ مذکورہ جلوس کے دوران مسجد کے احترام میں ٹہراتے اور ماتھا ٹیکتے تھے،ان میں سے کئی نے جارحانہ نعرے بازی کی تھی، جو کہ کونکن علاقے میں ہولی کی تقریبات کا روایتی حصہ ہے۔ پولیس نے واقعے کے بارے میں ایک گمراہ کن ریل کو حذف کر دینے کابیان دیاہے۔حالانکہ ہولی اور جمعہ پر امن برقرار رہا۔پولیس کے مطابق نعرے بازی اور غیر قانونی اجتماع پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ گاؤں کے جواہر چوک میں، شمگا جلوس کے دوران، عینی شاہدین نے کہاکہ یہ جلوس، لکڑی کے ایک لمبے درخت کے تنے کو لے کر جسے مڈاچی میراونوک کے نام سے جانا جاتا ہے، راجا پور گاؤں کے ساکھلکرواڑی سے شروع ہوتا ہے اور دو کلومیٹر دور دھوپیشور مندر پر ختم ہوتا ہے۔ روایت کے مطابق، راستے میں مسجد کی سیڑھیوں پر صندوق چند منٹوں کے لیے رکھا جاتاہے۔ہر سال وہ صندوق کو مسجد کی دہلیز تک لاتے ہیں۔ ہم بھی جلوس دیکھنے جاتے ہیں۔ اس بار بھی وہ سیڑھیوں تک آئے۔بلکہ گیٹ توڑ کر اندر آگئے لیکن انہیں باہر نکال دیاگیا۔راجا پور نگر پنچایت کے ایک رکن نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی، لیکن اپنا نام ظاہر نہ کیااور “ہر پانچ سال بعد، ایک جلوس نکالا جاتا ہے، ہولی کی تقریبات کے دوران، مسجد کی سیڑھیوں پر چند منٹ رک کر احترام کے لیے کیا جاتا ہے، “یہ ہمیشہ پرامن جلوس رہا ہے، لیکن اس بار معاملہ بڑھ گیا۔ البتہ پولیس نے ہولی کے جشن کے دوران ایک ہندو ہجوم کی مسجد میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی خبروں کی تردید کی۔ اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس سے ریاست میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں سوال کیا۔ “شرمناک ہے کہ پولیس کی موجودگی میں ایک مسجد پر حملہ کیا گیا ہے،” انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا۔ مجموعی طورپر حساس ریاستوں میں ہولی کاتہوار پُر امن طور پر منایاگیاعور جمعہ کی نماز میں بھی کوئی خلل نہیں پڑا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرقہ پرست عناصر سرگرم ہیں اور اپنے عہدوں کو بھی لحاظ نہیں کرتے ہوئے ،انتہائی شرانگیز بیانات دیتے ہیں جوکہ معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جن میں اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی اور آسام کے وزیراعلی سرما سر فہرست ہیں،مہاراشٹر میں بھی اس طرح کوشش جاری ہے،ان میں ریاستی وزیر نتیش رانے کے بیانات سب سے زیادہ شرانگیز ہوتے ہیں ،حالانکہ نتیش رانے بے لگام ہیں۔خیر ملک بھر میں ہوی کے موقع پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ہے۔اور حکومت، انتظامیہ اور پولیس اسی طرح چاق وچوبند رہی تو مستقبل میں بھی حالات کو بہتر رکھنے میں مدد ملے گی۔جبکہ عوام نے بھی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

 

Share this

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *