زندگی بلبلہ ہے پانی کا : ایک تبصرہ

محمد ولی اللہ قادری

استاد گورنمنٹ انٹر کالج ضلع اسکول

چھپرا بہار 9852234311
پیش نظر کتاب “زندگی بلبلا ہے پانی کا” چمپارن کا مشہور شاعر جناب محمد ظفر امام ظفر حبیبی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے – شاعر کا پہلا شعری مجموعہ “گردش ایام” کے نام سے 2019 میں شائع ہو کر مقبول عام ہو چکا ہے – کتاب کا عنوان بہت ہی معنی خیز ہے – زندگی کی حقیقت کو پیش کرنے کی شاعر نے بیش از بیش کوشش کی ہے – کتاب کے مطالعہ سے پہلا تاثر یہ ملتا ہے کہ شاعر قناعت پسند ہے – دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دینا شاعر کا مقصد اولیں ہے – اردو کے تئیں سچی عقیدت ہی کا نتیجہ ہے ظفر حبیبی کو اردو زبان پر فخر بھی ہے – اس حوالے سے شاعر نے بالکل اچھا پیغام دیا ہے کہ :
زبان کون سی پیاری ہے پوچھے گر کوئی
تو ہم بھی فخر سے اردو زبان لکھیں گے
“زندگی بلبلہ ہے پانی کا” عہد حاضر میں شائع ہونے والی کتابوں سے اس وجہ سے منفرد ہے کہ شاعر نے کتاب کے عنوان سے بھرپور انصاف کیا ہے – شاعر کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے – عہد حاضر کے بھاگ دوڑ کے اس دور میں اردو کے قارئین کی مصروفیات کا خیال کرتے ہوئے شاعر نے بلا واسطہ اپنی شاعری کو ان کی خدمت میں پیش کیا ہے – اس لیے دو صفحہ کی مختصر نثری تحریر کے بعد اصل کتاب شروع ہو جا رہی ہے – مصنف نے ناقدین کی بیساکھی کا بالکل سہارا نہ لے کر ایک خاموش پیغام بھی دیا ہے کہ کتاب کا قاری ہی اصل میں ناقد ہوتا ہے – قاری پر شاعر کو مکمل اعتماد ہے کہ ہے کہ اس کی شاعری کے سلسلے میں وہ فیصلہ کرے گا کہ اس کی شاعری کس معیار کی ہے اور شاعر اپنی کاوش میں کس قدر کامیاب ہوا ہے؟
کتاب کا آغاز حسب روایت حمدیہ شاعری سے ہوا ہے – حمدیہ شاعری کو “صفحات ثنائے رب” کے باب میں شامل کیا گیا ہے – اس باب میں شاعر کی پانچ حمدیہ تخلیقات شامل ہیں – شاعر اپنی حمد گوئی میں بہت ہی عز و انکساری کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر عرض گزار ہے – اس باب کے محض چند اشعار تبرکا ملاحظہ کریں
تیری بخشش کی نہیں ہے کوئی بھی حد یا خدا
زندگی میری، عطا سے ہے بھری رب کریم
اس کرم کا ادا شکریہ ہو کس طرح
امت مصطفی ہی میں پیدا کیا
ہے التجا کے ظفر کی نبی کے صدقے میں
مثال جس کی نہ ہو وہ کمال دے اللہ
“بستان نعت “کے باب میں شاعر کی چھے نعتیہ شاعری کے نمونے شامل ہیں – ظفر حبیبی کی نعتیں شرعی عیوب اور افراط و تفریط سے پاک ہے – شاعر نے نعت گوئی کے باب میں جس عقیدت کا اظہار کیا ہے وہ قابل تقلید نمونہ ہے – شاعر نے پیارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بے شمار نمایاں پہلو کو احسن طریقے سے پیش کیا ہے – ساتھ ہی ساتھ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جود و سخا جیسے عقائد کو بھی بے باکی سے پیش کیا ہے – تفصیل سے قطع نظر چند ایمان افروز اور عاشقانہ اشعار ملاحظہ کریں :
ہم انگلی چومتے ہیں اور آنکھوں سے لگاتے ہیں
انہیں کے نام کی عظمت ہماری ساری پونجی ہے
شفاعت سے رسول پاک کی روز جزا ہم پر
کرے گا جو خدا کی رحمت، ہماری ساری پونجی ہے
آپ کے در سے سوالی کوئی خالی نہ گیا
ایسے اک داتا تھے دلدار رسول عربی
رب نے بخشا ہے ظفر ایسا مقام ارفع
آپ جنت کے ہیں مختار رسول عربی
ظفر! شرمائے جس سے بدر کامل
درخشاں اس قدر تھا روئے انور
پیش کردہ اشعار کے مطالعہ سے ظفر حبیبی کے نعتیہ شاعری کے موضوعات پر گرفت کا اندازہ ہو جاتا ہے – بعض اشعار کے مطالعہ کے دوران بزرگ نعت گو شعرا بالخصوص حسان الہند اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے اشعار لاشعوری طور پر ذہن میں آ جاتے ہیں – ایسا لگتا ہے کہ ظفر حبیبی کی نعتیہ شاعر میں اعلی حضرت کی روحانیت بھی کام کر گئی ہے –
“دشت غزل” کے تحت ظفر حبیبی کی ایک سو تیتالیس غزلیں موجود ہیں – اس قدر بھرپور تعداد میں عزل کا ہونا شاعر کی حساسیت کا پتا دیتا ہے – ظفر حبیبی کی غزلوں میں موضوعات کی رنگا رنگی قابل ذکر ہے عصری مسائل اور احساسات و جزبات کو عمدگی سے شاعر نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے – ظفر حبیبی کی غزلوں پر جہاں کلاسیکی شعرا کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں وہیں یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شاعر نے عہد حاضر کے شعرا کے کلام سے بھی مکمل استفادہ کیا ہے -” زندگی بلبلہ ہے پانی کا “کے مطالعہ کے وقت راحت اندوری اور منور رانا خاص طور پر پر یاد آتے ہیں – راحت اندوری کا ضرب المثل شعر :
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
کو ذہن میں رکھ کر ظفر حبیبی کا یہ شعر دیکھیں :
لگاتا کیوں ہے نشیمن میں آگ اوروں کے
اسی کے شعلوں سے ترا گھر بھی نہ جل جائے
منور رانا کے یہاں “ماں” کے موضوع پر لازوال اشعار ہیں – اس موضوع پر ظفر حبیبی کے یہاں بھی قابل ذکر اشعار موجود ہیں – مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :
سر سے پا تک مخزن رحمت ہے ماں
زندگی کی بے بہا دولت ہے ماں
کرتا ہوں میں اس کی عظمت کو سلام
تا بہ حد آسمان وسعت ہے ماں
ظفر حبیبی کی کائنات شعر میں احتجاجی و طنزیہ لے بھی قابل ذکر ہے – عہد حاضر کی سیاست کے تناظر میں حساس دل شاعر کے لیے احتجاجی لے اختیار کرنا لازمی ہے – 2014 ء کے بعد ہمارے ملک کی سیاست نے جو کروٹ لی اور جمہوریت کے وقار کو جس طرح پامال کیا گیا، اس صورت حال میں ملی درد رکھنے والا اور جمہوریت دوست شاعر کیسے خاموش رہ سکتا ہے؟ اسی پس منظر میں چند اشعار دیکھیں :
جن کے چہرے سے ہے داغوں کی کراہت ظاہر
وہ بھی اب ائینہ دنیا کو دکھانے ائے
باغباں خود ہی چمن سے سے کرے غداری جب
پھر بھلا کون گلستاں کو بچانے آئے
کیا سبب ہے اے امیر شہر تو اتنا بتا
کیوں ترے سامنے جل رہا ہے میرا مکاں
امیر شہر بس اتنا بتا دے تو کرم ہوگا
یہاں کس کے اشارے پر کسی کا خون بہتا ہے
ہوگا کیا اس قافلے کا یہ تو اب جانے خدا
راہ جب خود ہی بھٹک جائے امیر کاروں
غزل کا بنیادی موضوع عشق و عاشقی کو تسلیم کیا جاتا ہے – جب ہم ظفر حبیبی کی تخلیقات کو پڑھتے ہیں تو اس حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ اشعار ہمارا استقبال کرتے ہیں :
بےحجاب اپنے رخ روشن کو تم رکھو نہیں
پڑ نہ جائے ایسے میں پھر تم پر کوئی بھی بد نظر
بزم طرب میں تیری ظفر اگئے ہیں جب
تجھ پر لٹا کے اب تو دل و جان جائیں گے
ہر غزل میں شامل ہے درد بن کے وہ میری
سر میں ہے وہی سودا اور خمار آنکھوں میں
وصل جاناں کی دل میں لئے آرزو
ہم بھی جاگے ہوئے ہیں کئی رات کے
مٹتے اقدار اور سماجی عدم مساوات اور انگریزی تہذیب و ثقافت کی یلغار جیسے موضوعات پر بھی ظفر حبیبی نے اشعار خلق کیے ہیں – نفرت کے اس ماحول میں ظفر کی شاعری محبت کا پیغام خوب خوب عام کر رہی ہے – بلا تبصرہ مزید چند اشعار دیکھا جائے:
نئی تہذیب نے اس دور کو لعنت یہ بخشی
کھلے دل سے جو ملتا ہے وہی کینہ بھی رکھتا ہے
سہمے سہمے ہوئے ہیں بشر کس قدر
سامنے سب کے منظر ہیں آفات کے
دیوار ہے انا کی، اسے پہلے توڑیے
ٹوٹے ہوئے دلوں کو محبت سے جوڑ ئیے
پل بھر کی زندگی کا بھروسہ نہیں ظفر
سب کو گلے لگائیے نفرت کو چھوڑ ئیے
حاصل کلام یہ کہ “زندگی بلبلہ ہے پانی کا” میں نظم قطعات مناقب اور شخصی مراثی وغیرہ بھی شامل ہیں – جملہ اصناف شاعری ہمیں متاثر کرتی ہیں اور ظفر حبیبی کی شاعری کے معیار و مقدار کا ثبوت بھی فراہم ہو جاتا ہے اس کتاب میں معیاری کاغذ استعمال کیا گیا ہے اس لیے ٢٨٣ صفحات کی کتاب کی ق ٣٥٠ روپے مناسب ہے اس کتاب کو عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی نے شائع کیا ہے اس کتاب کی اشاعت پر راقم الحروف شاعر کو صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہے اور امید قوی ہے کہ اس کتاب سے ہماری نئی نسل ضرور استفادہ کرے گی اور ناقدین شاعر کے ساتھ انصاف کریں گے ان شاء اللہ – دیگر اطلاعات کے لیے شاعر سے 9939880936 مذکورہ بالا رابطہ نمبر پر رجوع کیا جاسکتا ہے –

Share this

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *